تلنگانہ ؍ اضلاع کی خبریں

بی آرایس ‘وقف ترمیمی قانون کی شدید مخالف۔سیاہ قانون کو فوراً واپس لیاجائے

اوقافی جائیدادوں کو ملت کی تعلیمی ترقی اور بھلائی کےلئے استعمال کرنے پر زور۔دارالسلام میں احتجاجی جلسہ عام ۔سابق وزیر داخلہ محمدمحمود علی کا خطاب

بی آرایس ‘وقف ترمیمی قانون کی شدید مخالف۔سیاہ قانون کو فوراً واپس لیاجائے
اوقافی جائیدادوں کو چھیننے کی مرکزی حکومت کی سازش قابل مذمت۔کے سی آر ہندو مسلم اتحاد اور سیکولر ازم کے علمبردار۔مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کےلئے نمایاں خدمات
اوقافی جائیدادوں کو ملت کی تعلیمی ترقی اور بھلائی کےلئے استعمال کرنے پر زور۔دارالسلام میں احتجاجی جلسہ عام ۔سابق وزیر داخلہ محمدمحمود علی کا خطاب

حیدرآباد۔19اپریل(آداب تلنگانہ نیوز)سابق وزیر داخلہ تلنگانہ وسینئر بی آرایس قائد محمدمحمود علی نے کہاکہ بی آرایس پارٹی وقف ترمیمی قانون کی شدید مخالف ہے۔ بی آرایس سربراہ کے چندر شیکھر راﺅ کی ہدایت پر ایوان بالا راجیہ سبھا میں پارٹی ارکان نے نہ صرف وقف ترمیمی بل کی مخالفت کی بلکہ بل کےخلاف ووٹ دیا۔وہ مسلم پرسنل لاءبورڈ کے زیر اہتمام دارالسلام میں منعقدہ احتجاجی جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے۔ محمدمحمود علی نے کہاکہ وقف ترمیمی قانون کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور اوقافی اراضیات، مساجد، درگاہوں اور عیدگاہ کو چھیننے کی ناپاک سازش کی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ آج امت مسلمہ سیکولرافراد کے ہمراہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہاکہ سرزمین دارالسلام سے مرکزی حکومت کو یہ واضح اور دوٹوک پیغام دیاگیاہے کہ ہم مسلمان اور اس ملک کے سیکولر برادران وطن وقف ترمیمی قانون کو رد کرتے ہیں اور جلد از جلد اس سیاہ قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سابق وزیر داخلہ نے کہاکہ وقف ترمیمی قانون، درحقیقت، صرف ایک قانونی دستاویز نہیں بلکہ ہمارے دینی، تہذیبی، تعلیمی، اور آئینی وجود پر حملہ ہے۔وقف کا تصور اسلام میں صدقہ جاریہ کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ ہمارے اسلاف نے یہ جائیدادیں اپنی نسلوں کی فلاح کے لیے وقف کیں، تاکہ تعلیم، روزگار، رفاہ عامہ، دینی ادارے، یتیم خانے، اور اسپتال بن سکیں۔ لیکن آج ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مرکزی حکومت، جو سب کا ساتھ، سب کا وکاس کا نعرہ لگاتی ہے، اسی وقف کی جائیدادوں کو غیر آئینی ترمیمات کے ذریعے چھیننا چاہتی ہے۔یہ صرف جائیداد کی بات نہیں۔ یہ خودمختاری کی بات ہے۔ یہ اس حق کی بات ہے جو ہمیں ہمارے دین اسلام، دستورہند اور ہمارے اسلاف نے دیا ہے۔محمدمحمود علی نے بی آرایس پارٹی کے نمائندے کی حیثیت سے احتجاجی جلسہ عام میں شرکت کی اور پرزورانداز میں کہاکہ بی آر ایس پارٹی وقف ترمیمی قانون کی شدید مخالف ہے۔

پارٹی سربراہ کے چندرشیکھر راﺅ صاحب کی ہدایت پر بی آر ایس پارٹی کے ارکان راجیہ سبھا نے نہ صرف ایوان بالا میں وقف ترمیمی بل کے خلاف شدید صدائے احتجاج بلند کیا بلکہ وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں ووٹ کے استعمال کے ذریعہ حقیقی سیکولرازم کا ثبوت دیا۔ بی آرایس پارٹی کے رکن راجیہ سبھا سریش ریڈی صاحب نے ایوان میں بل کی مخالفت کی اور اسے واپس لینے کا پرزور مطالبہ کیا۔ محمدمحمود علی نے کہاکہ درگاہوں پر بلا لحاظ مذہب و ملت لوگ حاضری دیتے ہیں ۔ہمارے غیر مسلم بھائی درگاہوں پر منتیں مانگتے ہیں، دعا کرتے ہیں،درگاہوں سے عقیدت رکھتے ہیں، مرکزی حکومت کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ وقف کے نام پر ہندو مسلم اتحاد کو توڑے۔ انہوںنے کہاکہ وقف بورڈ کو مستحکم بنانے کے لئے عدالتی اختیارات دینے کے بجائے آج اختیارات چھینے جا رہے ہیں۔ اگر وقف بورڈ کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا تو آج ہماری بےشمار جائیدادیں، جن کی مالیت ہزاروں کروڑ روپے ہے، غیر قانونی قبضوں سے محفوظ ہوتیں۔ افسوس کہ وقف بورڈ کو ایک سیاسی مہرہ بنا دیا گیا ہے۔وقف ترمیمی قانون کے ذریعے بورڈ میں غیر مسلم ارکان کو شامل کرنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ ہم سپریم کورٹ کے اُس سوال کی بھرپور تائید کرتے ہیں کہ ”کیا ہندو مذہبی اداروں میں مسلمان شامل کئے جاسکتے ہیں؟”۔ اگر نہیں، تو یہ مساوات کہاں ہے؟ یہ سیکولرازم کا کون سا معیار ہے؟سابق وزیر داخلہ نے کہاکہ یہ صرف عدالتوں کا نہیں بلکہ ہمارا بھی امتحان ہے۔ ہمیں یکجہتی، اتحاد اور مسلسل پر امن احتجاج کے ذریعے یہ پیغام دینا ہوگا کہ ہم اپنی اوقافی جائیدادوں، اپنے اداروں، اپنے دینی وقار اور اپنی آئینی آزادی پر کسی بھی قسم کے حملے کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔انہوںنے کہاکہ آج ملک کے مسلمانوں کو ہرگز خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم مکمل طور پر اسلام کی آغوش میں پناہ لیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچاسکتی۔

میں مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ بارگاہ رب العزت میں دعائیں کریں۔ انہوں نے کہاکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔ یہاں پر چند مٹھی بھر افراد سیکولر تانے بانے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ لوک سبھا میں مسلم نمائندوں کی تعداد صرف 24 ہے تاہم وقف ترمیمی بل کے خلاف 232ووٹ ڈالے گئے اس ملک کے سیکولر براداران وطن جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے وقف ترمیمی قانون بنایا گیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی اس لڑائی میں سیکولر برادران وطن کو ساتھ لے کر آگے بڑھیں اور فرقہ پرستوں کے ناپاک اور خطرناک منصوبوں کو ناکام بنائیں۔انہوں نے کہاکہ مذہب اسلا م میں حصول تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ پہلی وحی اِقرا، حصول تعلیم کے لئے ہی نازل ہوئی۔ اس بات سے تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ حصول علم کے لئے حضور نے امت کو تاکید فرمائی ہے ۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے وقف کی جائیدادوں کو استعمال کیا جائے۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری اور دنیاوی تعلیم سے ملت کے نوجوانوں کو آراستہ و پیراستہ کیا جائے۔ تعلیم ایک ہتھیار ہے جس کے ذریعہ ہم ترقی حاصل کرسکتے ہیں اور پسماندگی کو ختم کرسکتے ہیں۔ بی آر ایس سربراہ کے چندرشیکھر راﺅ صاحب ہمیشہ سے ہی مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ وہ ہندو مسلم اتحاد اور سیکولرازم کے علمبردار ہیں۔ تلنگانہ میں بی آر ایس پارٹی کی ساڑھے نو سالہ حکمرانی میں مسلمانوں کی تعلیمی ترقی پر خصوصی توجہ دی گئی۔ آزادی کے بعد 65 برسوں تک تلنگانہ میں صرف 10 اقلیتی اقامتی اسکولس تھے جن میں برائے نام صرف 3 تا 4ہزار بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ مسلم بچوں کی تعلیمی ترقی کے لئے کے سی آر صاحب نے ریاست بھر میں 204 اقلیتی اقامتی اسکولس کا قیام عمل میں لایا۔

اسکولس کو کالجس کے طور پر اپگریڈ بھی کیا گیا۔ اقامتی اداروں میں ایک لاکھ سے زیادہ طلبہ کو تعلیم فراہم کی گئی۔ جن میں لڑکیوں کی بھی کافی تعداد شامل ہے۔ غریب مسلم طلبا کو بیرون ممالک میں اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کے لئے لاکھوں روپئے اوورسیز اسکالرشپس فراہم کی گئی۔انہوںنے کہاکہ بی آرایس کا دورحکومت فسادات سے پاک رہا۔محمدمحمود علی نے کہاکہ افسو س کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ہمارے بڑے اور بزرگوں نے ملت کی بھلائی کے لئے قیمتی اراضیات عطیہ کیں تاہم ہم ان اراضیات کا صحیح طور پر مسلمانوں کی ترقی کے لئے استعمال نہ کرسکے۔ اگر اوقافی اراضیات کو مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے استعمال کیا جاتا تو آج مسلمان تمام شعبہ جات میں شاندار ترقی حاصل کرتے ۔ بی آر ایس پارٹی کا بھی مطالبہ ہے کہ وقف ترمیمی قانون کو فوراً واپس لیا جائے۔ وقف بورڈ کو مستحکم بنایا جائے۔ وقف بورڈس کو عدالتی اختیارات دئے جائیں تاکہ وقف جائیدادوں کا تحفظ ہوسکے۔ انہوںنے حکومت ہند سے مطالبہ کیاکہ وقف ترمیمی قانون کو فی الفور واپس لیا جائے۔وقف بورڈ کو آئینی و عدالتی اختیارات کے ساتھ ایک مکمل خودمختار ادارہ بنایا جائے۔اوقافی جائیدادوں کو صرف مسلمانوں کے نظم و نسق میں رہنے دیا جائے۔قوم کی تعلیمی، معاشی و فلاحی ترقی کے لیے وقف اراضیات کاصحیح استعمال کیا جائے۔اور جو وقف جائیدادوں پر غیر مجاز قبضہ ہوگئے ہیں ان جائیدادوں کو واپس حاصل کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے۔اوقاف کو وقف ترمیمی قانون کے نام پر تباہ کرنے کے بجائے اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے لئے اقدامات کئے جائیں۔

آخر میں محمدمحمود علی نے کہاکہ بی آرایس پارٹی وقف ترمیمی قانون کےخلاف مسلم پرسنل لاءبورڈ کے ہر احتجاج میںبرابر شریک رہے گی۔ جب تک اس قانون کو واپس نہیں لیاجاتا ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔محمدمحمود علی نے صدرجلسہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدرمسلم پرسنل لاءبورڈ اور بیرسٹر اسد الدین اویسی ایم پی صدرکل ہند مجلس اتحاد المسلمین کی کاوشوں کی ستائش کی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button