وقف ترمیمی قانون کی بی آرایس شدید مخالف‘ایوان بالا میں مخالفت میں ووٹ
مسلمانوں کو عدالت عظمیٰ پر مکمل ایقان ۔سابق وزیر داخلہ محمدمحمود علی کا بیان

وقف ترمیمی قانون کی بی آرایس شدید مخالف‘ایوان بالا میں مخالفت میںووٹ
کے چندرشیکھر راﺅ ہندو مسلم اتحاد اور سیکولرازم کے علمبردار
تلنگانہ میں دس سالہ حکمرانی گنگا جمنی تہذیب اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی عملی تصویر
قوم کی تعلیمی اور معاشی ترقی کےلئے اوقافی اراضیات ہمارے اسلاف کے عطیات
غیر جمہوری اور غیر آئینی سیاہ قانون کے ذریعہ وقف کی اراضیات کو ہڑپنے حکومت کی سازش قابل مذمت
حیدرآباد۔17اپریل:سابق وزیر داخلہ محمدمحمود علی نے کہاکہ وقف ترمیمی قانون دراصل مسلمانوں کی مذہبی آزادی میں بے جا مداخلت ہے۔جس کی بی آرایس پارٹی شدید مخالفت کرتی ہے۔صحافتی بیان میں محمدمحمود علی نے کہاکہ بی آرایس سربراہ کے چندرشیکھر راﺅ سیکولرازم کے علمبردار ہیں ۔ وہ ہمیشہ سے ہی ہندو مسلم اتحاد کےلئے جانے جاتے ہیں۔ریاست تلنگانہ میں کے سی آر کی زیر قیادت دس سالہ بی آرایس کی حکمرانی گنگا جمنی تہذیب اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیعملی تصویر رہی ہے۔محمدمحمود علی نے کہاکہ بی آرایس پارٹی نے ہمیشہ سے ہی وقف بورڈ کو مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔وقف بورڈ مسلم ادارہ ہے۔لہذا وقف اراضیات کی دیکھ بھال کے معاملات مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہی ہونے چاہئیں۔وقف معاملات میں حکومت کی مداخلت قابل قبول نہیں ہے۔سابق وزیر داخلہ نے پرزور انداز میںکہاکہ اکثریت کی آڑ میں بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے لوک سبھا اور راجےہ سبھا میں وقف ترمیمی بل کو منظور کروایا اور وقف ترمیمی بل کو جلد از جلد قانون کی شکل دی۔بی جے پی حکومت کا منشا ومقصد اس سیاہ قانون کے ذریعہ مسلمانوں اور وقف املاک کو نشانہ بناناہے۔ہم وقف ترمیمی قانون کو رد کرتے ہیں اور اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔محمدمحمود علی نے کہاکہ ایوان بالا راجےہ سبھا میں بی آرایس نے وقف ترمیمی بل کےخلاف صدائے احتجاج بلند کیا۔بی آرایس کے رکن راجےہ سبھا سریش ریڈی نے ایوان میں بل کی شدید مخالفت کی اور کہاکہ وقف کے معاملات میں حکومت کی مداخلت قابل قبول نہیں ہے۔سریش ریڈی نے پرزورانداز میں کہاکہ درگاہیں ہندومسلم اتحاد کا گہوارہ ہوتی ہیں۔درگاہوں پر 45فیصد مسلمان حاضری دیتے ہیں تو 55فیصد حاضری دینے والے غیر مسلم یا ہندو ہوتے ہیں۔درگاہوں سے سب کو عقیدت ہوتی ہے۔یہاں منتیں ‘مرادیں مانگی جاتی ہیں۔تاہم وقف ترمیمی بل کے ذریعہ مسلمانوں اور ہندوﺅں کو تقسیم کرنے کی کوششیں درست نہیں ہےں۔بی آرایس کے ارکان راجےہ سبھا نے ایوان میں نہ صرف بل کی شدت کے ساتھ مخالفت کی بلکہ بل کےخلاف ووٹ دیا۔محمدمحمود علی نے کہاکہ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وقف بورڈ سے مسلمانوں کو خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ایک عرصہ سے وقف بورڈ کو عدالتی اختیارات کی فراہمی کا مطالبہ کیاجارہاہے۔ تاہم حکومتیں اوقافی اداروں کو عدالتی اختیارات کی فراہمی میں ناکام رہیں۔یہی وجہ ہے کہ بےش بہا اور قیمتی اوقافی اراضیات کا تحفظ نہ ہوسکا۔سابق وزیر داخلہ نے کہاکہ اگر وقف بورڈ کے ذریعہ بڑے پیمانے پر تعلیمی ادارے قائم کئے جاتے اور مسلمانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ وپیراستہ کیاجاتا تو آج مسلمان تعلیمی اور معاشی طور پر مستحکم ہوتے۔ہمارے اسلاف نے قوم وملت کی فلاح وبہبود کےلئے اپنی ذاتی اراضیات کو وقف کیا۔قیمتی جائیدادوں کو وقف کرنے کا منشا ومقصد یہی ہے کہ مسلمان تعلیمی اور معاشی اعتبار سے ترقی حاصل کریں۔لیکن افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ آزادی کے70برس گزر جانے کے باوجود وقف بورڈ کو مکمل طور پر بااختیار ادارے کا موقف حاصل نہ ہوسکا۔اوقافی اراضیات پر بڑے پیمانے پر قبضہ جات ہوئے ۔مختلف وجوہات اور کیسس میں زیادتی کے باعث وقف بورڈ اراضیات کی بازیابی میںناکام رہا۔اوقافی اراضیات پر قبضہ جات کے معاملات میں اضافہ اور وقف بورڈ کے وکلاءکی تعداد میں کمی کے باعث بھی کئی جائیدادیں ہمارے ہاتھوں سے چلی گئیں۔اگر وقف بورڈ کو عدالتی اختیارات حاصل ہوتے تو آج وقف اراضیات پر غیر مجاز قبضہ جات نہ ہوتے۔دوسری طرف وقف کے معاملات کو باقاعدہ بنانے کے نام پر بی جے پی حکومت نے ایک سیاسی کھیل کھیلاہے اور مسلمانوں کی اوقافی جائیدادوں کو ہڑپنے کےلئے وقف ترمیمی قانون کی منظوری عمل میں لائی ہے۔وقف ترمیمی قانون غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے ۔ےہ قانون مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلم پرسنل لاءبورڈ بشمول متعدد تنظیموں اور افراد نے وقف ترمیمی قانون کےخلاف عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایاہے۔عدالت عظمیٰ نے وقف ترمیمی قانون کی چند شقوں پر برہمی کا اظہار کیا اور ان شقوں پر عبوری حکم التواءعائد کیا۔وقف بورڈ س میں غیر مسلم ارکان کی نامزدگی کے معاملہ میں عدالت عظمیٰ نے استفسار کیا کہ کیا ہندو اداروں میں مسلم ارکان کو شامل کیاجائے گا۔اسی طرح سپریم کورٹ نے وقف بائی یوزر کے نکتہ پر بھی اعتراض کیا۔عدالت عظمیٰ نے قدیم اوقافی اراضیات کے رجسٹریشن سے متعلق نکتہ پر بھی اپنی ناراضگی جتائی اور آج سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی قانون کے معاملہ میں ایک اہم فیصلہ صادرکیا اور نئے وقف قانون کی اہم شقوں پر روک لگائی۔عدالت نے حکومت کو ہدایت دی کہ آئندہ سماعت تک امتناعی احکام کو برقرار رکھاجائے۔چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی قیادت میں تین رکنی بنچ نے کہاکہ سنٹرل وقف کونسل اور اوقاف بورڈ میں تاحال کوئی تقررات عمل میں نہ لائے جائیں۔وقف بائی یوزر جو جائیداد1997کے تحت درج کی گئی ہیںانہیں نہ چھیڑا جائے۔محمدمحمود علی نے پرزور انداز میں کہاکہ ہمیں عدلےہ پرپورا بھروسہ ہے۔عدالت کے ذریعہ مسلمانوں کو ضرور انصاف حاصل ہوگا۔بیان کے آخر میں سابق وزیر داخلہ نے کہاکہ اوقافی اراضیات مسلمانوں کی ملکیت ہے اوران پر مسلمانوں کا حق ہے ۔اوقافی جائیدادیں حکومت کی ملکیت نہیں ہے ۔لہذا حکومت اوقافی اراضیات کے معاملات میں مداخلت سے باز آجائے۔سیاہ قانون کو فی الفور واپس لیاجائے۔وقف اراضیات سے مسلمانوں کی ترقی اور فلاح وبہبود کو یقینی بنانے کےلئے تعاون کیاجائے