امریکی صدارتی الیکشن: کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں تفصیلات
ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے مابین سخت مقابلہ
امریکی صدارتی انتخاب: ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے مابین سخت مقابلہ
واشنگٹن، 5 نومبر – امریکہ کے 47ویں صدر کے لیے آج ہونے والے انتخاب میں سخت مقابلہ ہے، جس میں ریپبلکن پارٹی کے امیدوار سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے موجودہ نائب صدر کملا ہیرس مدمقابل ہیں۔ مبصرین دونوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ دیکھ رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا پس منظر اور سیاسی سفر
78 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ، جو پہلے بھی امریکہ کے 45ویں صدر رہ چکے ہیں، نیویارک کے علاقے کوئنز میں بزنس ٹائیکون فریڈ ٹرمپ کے گھر پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1968 میں یونیورسٹی آف پینسلوانیا سے معاشیات میں گریجویشن مکمل کیا اور اپنے والد کے کاروبار سے آغاز کیا۔ 1971 میں، ٹرمپ نے خاندانی کمپنی کا کنٹرول سنبھالا اور ہوٹلز اور تعمیراتی منصوبوں کے ذریعے شہرت حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی اور 2016 میں ہلیری کلنٹن کو شکست دے کر حیران کن طور پر صدر منتخب ہوئے۔
ٹرمپ کا دور صدارت متنازع رہا، جس میں انہوں نے سخت گیر دائیں بازو پالیسیوں کی حمایت کی اور امیگریشن، ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی تعلقات کے حوالے سے متنازع بیانات دیے۔ 2020 کے الیکشن میں وہ جو بائیڈن سے شکست کھا گئے اور ان کے حامیوں نے 6 جنوری کو امریکی ایوان پر دھاوا بولا۔ اب، دوبارہ انتخابی میدان میں اترے ہیں اور کئی عدالتی مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے صدر بننے کے لیے پُرعزم ہیں۔
کملا ہیرس: ممکنہ پہلی خاتون صدر
اگر کملا ہیرس کامیاب ہو جاتی ہیں، تو وہ امریکہ کی پہلی خاتون صدر بن جائیں گی۔ 60 سالہ کملا ہیرس کی پیدائش کیلیفورنیا کے شہر اوکلینڈ میں ہوئی، ان کے والد جیمیکا جبکہ والدہ کا تعلق بھارت سے ہے۔ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور اکنامکس میں گریجویشن کیا اور 1989 میں قانون کی ڈگری مکمل کی۔
کملا ہیرس 2016 میں امریکی سینیٹ کی رکن منتخب ہوئیں اور کیلیفورنیا کی اٹارنی جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی پہلی سیاہ فام خاتون بنیں۔ 2020 میں وہ نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئیں اور اب، امریکہ کی پہلی خاتون صدر بننے کے لیے انتخابی دوڑ میں شامل ہیں۔
یہ انتخاب امریکہ کی 235 سالہ تاریخ میں ایک اہم موقع کی حیثیت رکھتا ہے جس میں عوام کسی نئی سمت کے تعین کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ نتائج کا اعلان ہوتے ہی یہ معلوم ہوگا کہ امریکہ کا مستقبل کس کے ہاتھوں میں ہو گا۔