مہاراشٹرا اور دیگر ریاستوں میں انتخابات کےلئے فنڈ جمع کیاجارہاہے۔موسیٰ پروجیکٹ بڑا اسکام:کے ٹی آر
ریونت ریڈی حکومت پر بدعنوانیوں کا الزام:کے ٹی آر
مہاراشٹرا اور دیگر ریاستوں میں انتخابات کےلئے فنڈ جمع کیاجارہاہے۔موسیٰ پروجیکٹ بڑا اسکام
کارگزار صدر بی آرایس کا محمد محمود علی ‘سبیتا اندراریڈی ‘سرینواس یادوودیگر کے ہمراہ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کا دورہ
حیدرآباد19اکتوبر(آداب تلنگانہ نیوز) کارگزار صدر بی آرایس ورکن اسمبلی سرسلہ کے تارک راماراﺅ نے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تعمیر کے قدم پر سابق وزیراعلیٰ چندر شیکھر راو کی ستائش کی۔ ان پلانٹس نے موسیٰ ندی میں صاف پانی کے لئے سیوریج کے پانی کو تبدیل کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ انہوں نے ملک کے سب سے بڑے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کا ناگول میں معائنہ کیا۔ سابق وزیر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سابق بی آر ایس حکومت کی کوششوں کے نتیجہ میں موسیٰ ندی میں بہنے والے پانی کے معیار میں بہتری آئی ہے۔ سابق ریاستی وزیر کے ٹی راما راﺅ نے کانگریس حکومت پر بدعنوانیوں کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت مہاراشٹرا اور دیگر ریاستوں میں انتخابات کے لیے فنڈز جمع کرنے میں مصروف ہے۔کانگریس کی قیادت تلنگانہ پر بہت زیادہ بھروسہ کر رہی ہے، کیونکہ کرناٹک کی کانگریس ا یم یو ڈی اے اسکام میں چیف منسٹر کے ملوث ہونے کی وجہ سے پارٹی کو فنڈز فراہم کرنے سے قاصر ہے۔آج جی ایچ یم سی حدود کے ارکان مقننہ بشمول محمدمحمود علی سابق ریاستی وزیر داخلہ ورکن قانون ساز کونسل ‘سبیتا اندراریڈی سابق وزیر تعلیم ورکن اسمبلی مہیشورم‘سرینواس یادو سابق ریاستی وزیر افزائش مویشیاں ورکن اسمبلی صنعت نگر‘رکن اسمبلی ایل بی نگر سدھیر ریڈی ‘رکن اسمبلی عنبر پیٹ کالیرووینکٹیش, اقلیتی قائدخواجہ بدرالدین ودیگر کے ہمراہ راما راﺅ نے ناگول سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کا دورہ کیا، جو 320 ملین لیٹر فی دن کی صلاحیت کے ساتھ جنوبی ایشیا میں پانی کی صفائی کی سب سے بڑی سہولت ہے۔
یہ سہولت حیدرآباد کے گندے پانی کو 100 فیصدصاف کرنے کےلئے تعمیر کی گئی تھی، جس سے شہر کے گندے پانی کودور کرنے کےلئے انتظام کی صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔راما راﺅ نے کہا کہ کانگریس ہائی کمان صرف دو ریاستوں کرناٹک اور تلنگانہ پر فنڈز کے لیے انحصار کر رہی ہے اور پارٹی قیادت پیسے کے لیے بے چین ہے، جبکہ کرناٹک کی حکومت ‘کانگریس کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر اے ریونت ریڈی کو پارٹی کے لیے فنڈز کا واحد ذریعہ بنا دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ریاست میں بدعنوانی اور بدانتظامی پھیلی ہوئی ہے۔انہوں نے مزید الزام لگایا کہ موسیٰ ندی کی خوبصورتی کا منصوبہ موجودہ انتظامیہ کے تحت ایک بڑے اسکام کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ موسیٰ ندی کا منصوبہ کانگریس کی بدانتظامی کی واضح مثال ہے، اور پارٹی اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پروجیکٹ کی لاگت میں اضافہ کر رہی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پروجیکٹ کی لاگت میں 16,000 کروڑ روپے سے 1.5 لاکھ کروڑ روپے تک حیران کن اضافہ کر دیا گیا ہے۔کے ٹی راما راو نے کہا کہ چیف منسٹر اے ریونت ریڈی کے موسیٰ ندی کو خوبصورت بنانے کا منصوبہ ناقابل قبول ہے۔ یہ بیوٹیفکیشن نہیں بلکہ لوٹیفیکیشن ہے۔
انہوں نے موسیٰ ندی کی خوبصورتی کے لیے اتنے بڑے اخراجات کی ضرورت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ بی آر ایس کے دور حکومت میں 3,866 کروڑ روپے کے سیوریج ٹریٹمنٹ پروجیکٹ کی تکمیل کی گئی۔اس پروجیکٹ میں تمام 54 نالوں کا احاطہ کیا گیا جو پانی اور صنعتی فضلہ کو موسیٰ ندی میں لے جاتے ہیں، اور چیف منسٹر کے پاس سہولیات کا افتتاح کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں بچا تھا۔انہوں نے کہا کہ گنگا کی صفائی کے لیے 40,000 کروڑ روپے کی لاگت سے منصوبہ تیار کیا گیا تھا، جبکہ گجرات میں دریائے سابرمتی کی بحالی کے منصوبے کا 2018 میں 7,000 کروڑ روپے کی لاگت سے آغاز کیا گیا۔ پھر موسیٰ ندی کی صفائی کے لیے 1.5 لاکھ کروڑ روپے کی ضرورت کیوں ہے؟انہوں نے سوال کیا کہ جڑواں شہروں میں اتنے بڑے پیمانے پر سیوریج ٹریٹمنٹ کی طویل مدتی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کا سہرا اس وقت کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راﺅ کے دوراندیشی اور عزم کو جاتا ہے۔
انہوں نے سابقہ حکومت کے منصوبوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ گوداوری کے پانی کو موسیٰ ندی میں چھوڑنے کے لیے گنڈی پیٹ ٹینک کو کونڈاپوچماں ذخائر سے جوڑنا اور 57.5 کلومیٹر طویل موسیٰ ندی کے راستے کے ساتھ منچی روولا سے پرتاپ سنگارم تک ایکسپریس وے، جس پر 10,000 کروڑ روپے لاگت آئے گی، نیز 540 کروڑ روپے کی لاگت سے مزید 15 پلوں اور چیک ڈیمز کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ موسیٰ ندی کے بفر زون میں رہنے والوں کو موسیٰ ندی کی خوبصورتی کے نام پر پریشان کیاجارہاہے، اس معاملہ میں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے 11,000 سے زائد خاندانوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو حکومت کے اقدامات سے متاثر ہوں گے۔انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ کئی دہائیوں سے پراپرٹی ٹیکس اور پاور چارجز وصول کرتے ہوئے انہیں تمام سہولتیں دے کر آپ انہیں غیر مجازقبضے کیسے کہہ سکتے ہیں؟