خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم اخلاقی زوال کا نتیجہ
اخلاقی اقدار کے بغیر بہتر سماج کی تعمیر ممکن نہیں ۔ بڑے پیمانے پر بیداری پیدا کرنے کی ضرورت
جماعت اسلامی ہند شعبہ خواتین کی ملک گیر مہم ’اخلاقی محاسن آزادی کے ضامن‘‘ کے تحت تلنگانہ میں مختلف النوع سرگرمیاں
اخلاقی اقدار کے بغیر ایک بہتر سماج کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔ بھارتی سماج کے لیے یہ امر بے حد تشویشناک ہے کہ ہمارے معاشرے میں اخلاقی بحران تیزی سے گہرا ہو رہا ہے۔ بھارت جیسے کثیر مذہبی ملک کے باشندوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ہر مذہب نے اخلاقیات کو اہمیت دی ہے اور انسانیت کو ترجیح دی ہے۔ لہذا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر مذہب کے لوگوں میں اخلاقیات کے بارے میں شعور پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر بیداری پیدا کی جائے تاکہ انسان کو حقیقی آزادی نصیب ہو سکے۔ اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے شعبہ خواتین جماعت اسلامی ہند، تلنگانہ نے ایک ملک گیر مہم ’’اخلاقی محاسن، آزادی کے ضامن‘‘ کے عنوان سے شروع کی ہے۔ یہ بات ساجدہ بیگم، ریاستی سکریٹری جماعت اسلامی ہند، تلنگانہ نے آج یہاں پریس کلب، سوماجی گوڑہ حیدرآباد میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس پریس کانفرنس سے خدیجہ مہومین، ریاستی سکریٹری جماعت اسلامی ہند، حلقہ تلنگانہ، ڈاکٹر اسریٰ محسنہ، تلنگانہ اسٹیٹ کوآرڈینیٹر، اور خنسہ صدف، آرگنائزنگ سکریٹری گرلز اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا، تلنگانہ نے بھی خطاب کیا۔
محترمہ ساجدہ بیگم نے ملک میں خواتین اور لڑکیوں پر ہونے والے جنسی حملوں، تشدد اور قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ملک میں خواتین کے ساتھ سماجی عدم مساوات، تحفظ کی عدم فراہمی اور امتیازی سلوک نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ خاص طور پر حاشیہ پر کھڑی دلت، آدیواسی، اقلیتی اور معذور خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات سنگین صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ حالیہ واقعات میں کولکاتہ (مغربی بنگال) کے آر جی کر اسپتال میں ایک ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل، گوپال پور (بہار) میں ایک 14 سالہ دلت لڑکی کی اجتماعی عصمت دری اور قتل، اودھم سنگھ نگر (اتراکھنڈ) میں ایک مسلم لڑکی کی عصمت دری کے بعد بہیمانہ قتل، اور بدلا پور (مہاراشٹر) کے ایک اسکول میں دو کنڈرگارٹن لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی جیسے واقعات شامل ہیں۔ یہ واقعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ملک میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ذہنیت اور رویے میں سنگین تبدیلی کی ضرورت ہے۔
نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) اور نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس) کے اعداد و شمار کے مطابق، خواتین کے خلاف جرائم میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حالیہ ’’اے ڈی آر‘‘ رپورٹ کے مطابق 151 موجودہ قانون سازوں پر خواتین کے خلاف جرائم کے الزامات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین پر مظالم کی یہ ذہنیت ایک وبا کی طرح پھیل چکی ہے جو قوم کے امن و سکون اور ترقی کو متاثر کر رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ معاشرے میں اخلاقی اقدار کا فقدان ہے، جس میں عورتوں کو اشیاء کی مانند سمجھنا، جنسی استحصال، زائد از ازدواجی تعلقات، اور شراب و منشیات کے بڑھتے استعمال جیسے مسائل شامل ہیں۔
سکریٹری جماعت اسلامی ہند تلنگانہ نے کہا کہ فرقہ وارانہ اور ذات پات پر مبنی سیاست نے صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ مجرموں کو سیاسی و مادی مفاد کے لیے ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے، ان کے جرائم کو نہ صرف نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ ان پر جشن بھی منایا جاتا ہے۔ اس طرح کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کو انجام دینے میں قانون بھی معاون ثابت ہو رہا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بے حیائی تیزی سے پھیل رہی ہے۔
مہم کی اسٹیٹ کنوینر ڈاکٹر اسریٰ محسنہ نے اخلاقیات مہم کی تفصیلات بتلاتے ہوئے کہا کہ اس مہم کے تحت ریاست تلنگانہ میں بھی مختلف پروگرام طے کیے گئے ہیں جن میں سیمینار، سمپوزیم، اجتماعات، طلبہ کے لیے مقابلہ جات اور بڑے پیمانے پر گھر گھر ملاقاتیں شامل ہیں جن کے ذریعے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے اور انہیں اخلاقیات اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی حقیقی آزادی کی اہمیت سے روشناس کروایا جائے گا۔ اس موقع پر مہم کا پوسٹر اور محترمہ رحمت النساء کا تحریر کردہ ایک کتابچہ "Morality is Freedom” کی رونمائی کی گئی۔