وقف ترمیمی بل کے خلاف بی آرایس کا تحریک چلانے کاا علان:محمدمحمود علی
کے چندر شیکھر راﺅ سیکولر ازم کے علمبردار اور مسلمانوں کے حقیقی ہمدرد
وقف ترمیمی بل کے خلاف بی آرایس کا تحریک چلانے کاا علان
پارٹی کے اعلیٰ قائدین پر مشتمل وفد کے ہمراہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے نمائندگی کا فیصلہ
بل سے فی الفور دستبرداری کا مطالبہ۔وقف بورڈ کو عدالتی اختیارات فراہم کئے جائیں:محمدمحمود علی
بھارت راشٹرا سمیتی کے دور میں مسلمانوںکے سنہرے دور کا آغاز
اقلیتی طلبہ کی تعلیمی ترقی کےلئے 204اقامتی اسکولس کے قیام کاعظیم کارنامہ
غریب اقلیتی طلبہ کو بیرون ممالک کی جامعات میں اعلیٰ تعلیم کےلئے 20لاکھ روپئے اسکالر شپس‘ائمہ وموذنین کو اعزازےہ کی فراہمی
کرفیو اور فسادات سے پاک حکمرانی۔اجمیر میں رباط‘اسلامک سنٹر کے قیام کےلئے مساعی
کانگریس کے آٹھ ماہ کے دورحکومت میں نظم وضبط کی صورتحال ابتر
مرکز اور ریاست میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں
حیدرآباد۔19اگست:( آداب تلنگانہ نیوز) محمدمحمود علی سابق وزیر داخلہ ورکن قانون سازکونسل نے کہاکہ بی آرایس وقف ترمیمی بل کی شدید مخالفت کرتی ہے۔انہوںنے کہاکہ بی آرایس سربراہ کے چندر شیکھر راﺅ وقف بورڈس میںکسی بھی قسم کی مداخلت کے شدید مخالف ہیں۔ وقف ترمیمی بل کے خلاف بی آرایس کے چار اراکین راجےہ سبھا کے علاوہ اعلیٰ قائدین کاوفد مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے ملاقات کرے گا اور وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں نمائندگی پیش کرے گا۔وہ آج تلنگانہ بھون میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔محمدمحمود علی نے کہاکہ مرکز میں برسراقتدار بی جے پی حکومت نے وقف ترمیمی بل لوک سبھا میں پیش کیاہے۔جن میں 40ترمیمات کی گئی ہیں۔وقف ترمیمی بل دستور کی دفعات 14‘15اور25کی صریح خلاف ورزی پر مبنی ہے۔محمدمحمود علی نے کہاکہ بھارت راشٹرا سمیتی وقف ترمیمی بل کی شدید مذمت کرتی ہے۔انہوںنے کہاکہ وقف ترمیمی بل میں تمام اختیارات ضلع کلکٹر کو حاصل ہونے کاا ظہار کیاگیاہے۔
انہوں نے کہاکہ اس طرح سے کلکٹر راج وجود میں آئے گا۔محمدمحمود علی نے کہاکہ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کےلئے وقف بورڈ س کو عدالتی اختیارات کی فراہمی ناگزیر ہے۔انہوںنے کہاکہ وقف ترمیمی بل میں وقف بورڈس میں دو غیر مسلم نمائندوں کو بھی شامل کرنے کا اظہار کیاگیاہے۔ ےہ بات بھی ہرگز قابل قبول نہیں ہے کیوںکہ اوقافی جائیدادوں کا معاملہ خالصتاً مسلمانوں سے تعلق رکھتاہے۔محمدمحمود علی نے دلیل پیش کی کہ جب ہندو اوقاف (انڈومنٹ)اور سکھوں کی پربندھک کمیٹیوں میں دوسری برادریوں کے افراد کی شمولیت کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔تب مسلمانوں کے معاملہ میں ایسا متنازعہ فیصلہ کیا معنی رکھتاہے۔انہوںنے کہاکہ لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل کےخلاف اپوزیشن جماعتوں نے شدید احتجاج کیا۔جس کے تناظر میںےہ بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے رجوع کیاگیاہے۔انہوںنے کہاکہ بی آرایس پارٹی وقف ترمیمی بل کےخلاف ایک تحریک چلائے گی۔انہوںنے مرکزی حکومت سے پرزور مطالبہ کیاکہ وقف ترمیمی بل کو فی الفور واپس لیاجائے۔محمدمحمود علی نے کہاکہ وقف بورڈ ایک علیحدہ مسلم ادارہ ہوتاہے ۔بی آرایس پارٹی کے دوراقتدار میں کے چندر شیکھر راﺅ کی قیادت میں اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کےلئے عملی اقدامات روبہ عمل لائے گئے تھے۔
انہوں نے کہاکہ وقف ایک ایسا ادارہ ہوتاہے جومسلمانوں کی جانب سے وقف کردہ اراضیات کے تحفظ کو یقینی بناتاہے۔منشائے وقف کے تحت خدمات انجام دی جاتی ہیں تاکہ اوقافی اراضیات کے ذریعہ غریب مسلمانوں کی فلاح وبہبود کو یقینی بنایاجاسکے۔ تاہم آج بڑے افسوس کے ساتھ کہناپڑرہاہے کہ مرکزمیں برسر اقتدار بی جے پی حکومت نے وقف ترمیمی بل کی پیشکشی کے ذریعہ وقف بورڈس کے اختیارات کو سلب کرنے کی کوشش کی ہے۔انہوںنے کہاکہ بی آرایس سربراہ کے چندر شیکھر راﺅ سیکولرازم کے علمبردار ہیں۔وہ وقف ترمیمی بل کے شدید مخالف ہیں۔انہوںنے کہاکہ سارے ہندوستان میں کے سی آر ایک سیکولر لیڈر ہیں جو مسلمانوں کی فلاح وبہبود اور ترقی کےلئے نمایاں خدمات کی انجام دہی کا ایک شاندار ریکارڈ رکھتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ کانگریس اور دیگر جماعتیں مسلمانوں کی بھلائی سے متعلق صرف دعوے کرتی ہیں تاہم کے سی آر نے عملی اقدامات کے ذریعہ مسلمانوں کی ترقی کو یقینی بنایا۔انہوںنے کہاکہ قیام تلنگانہ کے بعد بی آرایس کا دورحکومت اقلیتوں کےلئے سنہرا رہا۔محمدمحمود علی نے کہاکہ تعلیم ایک قیمتی ہتھیار اور انسان کی ضرورت ہوتی ہے۔کانگریس اور تلگودیشم نے تقریباً68برس تک حکمرانی کی۔
کانگریس نے تقریباً48برس اور تلگودیشم نے لگ بھک 17برس ریاست میں حکومت کی۔ تاہم اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کےلئے کوئی اقدامات روبہ عمل نہیں لائے ۔کانگریس کے دورحکومت میں ریاست میں صرف 10اقلیتی اقامتی اسکولس برائے نام کارکرد تھے اوران اسکولس میں صرف ایک ہزار طلبہ زیر تعلیم تھے۔کے چندر شیکھر راﺅ نے مسلمانوں میں غربت اور پسماندگی کے خاتمہ کےلئے تعلیم کی فراہمی کے خصوص میں عملی اقدامات کئے۔قیام تلنگانہ کے بعد بی آرایس کے دورحکومت میں اندرون د و برس 204اقلیتی اقامتی اسکولس کاقیام عمل میں لایا گیا۔اقلیتی اقامتی اسکولس میں زائد از 1.40لاکھ طلباءوطالبات زیر تعلیم تھے۔کروڑہا روپئے فنڈس کی اجرائی کے ذریعہ اقلیتی طلبہ کو کارپوریٹ طرز کی تعلیم قیام وطعام کے ساتھ مفت فراہم کی گئی۔انہوںنے کہاکہ غریب اقلیتی طلبہ کو بیرون ممالک کی جامعات میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کےلئے اوورسیز اسکالرشپس کے تحت 20لاکھ روپئے فراہم کئے گئے۔اقلیتی طلبہ کو لندن‘آسٹریلیا‘امریکہ اور دیگر بیرون ممالک کی جامعات میں اعلیٰ تعلیم کےلئے اسکالر شپس فراہم کی گئی۔محمدمحمود علی نے کہاکہ نہ صرف ریاست تلنگانہ میں کے چندر شیکھر راﺅ نے بڑے پیمانے پر اقلیتی اقامتی اسکولس کا قیام عمل میں لایا بلکہ اسکولس کو اپ گریڈ بھی کیاگیا۔ انٹر میڈیٹ اور ڈگری اقامتی کالجس قائم کئے گئے۔محمدمحمود علی نے کہاکہ اقلیتی اقامتی اسکولس میں 109اسکولس لڑکوں اور 97اسکولس لڑکیوں کےلئے قائم کئے گئے۔
انہوں نے کہاکہ لاکھوں طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ وپیراستہ کیاگیا۔انہوںنے کہاکہ اقلیتوں کی ہمہ جہت ترقی کو یقینی بنانے کےلئے کے سی آر نے نمایاں خدمات انجام دیں۔محمدمحمود علی نے کہاکہ مساجد کے ائمہ وموذنین کو ماہانہ 5000روپئے اعزازےہ فراہم کیاگیا۔انہوںنے کہاکہ بی آرایس کے دورحکومت میں اقلیتی اداروں کے صدورنشین مسیح اللہ خان اور محمد سلیم نے مذکورہ بالا اسکیم پر موثر عمل کیا۔انہوںنے کہاکہ اقلیتوں کی حقیقی اور عملی ترقی کا آغاز کے چندر شیکھر راﺅ کے دورحکومت میں ہوا۔ بی آرایس حکومت نے اجمیر میں رباط کے قیام کےلئے اقدامات کئے۔ایک ایکر اراضی کی خریدی عمل میں لائی گئی اور 5کروڑ روپئے منظور کئے گئے۔انہوںنے کہاکہ 1947تا 2014ملک بھر میں کئی فسادات ہوئے۔قیام تلنگانہ کے بعد بی آرایس پارٹی برسراقتدار آئی اور 2014سے تلنگانہ میں فسادات کا خاتمہ ہوا۔ساڑھے نو بر س بی آرایس کے دوراقتدار میں ریاست تلنگانہ فسادات اور کرفیو سے پاک رہی۔تاہم آج کانگریس کے دوراقتدار میں نظم وضبط کی صورتحال انتہائی ابتر ہوچکی ہے۔صرف کانگریس کے آٹھ ماہ کے دوراقتدار میں نظم وضبط ٹھپ ہوکر رہ گیاہے۔میدک میں فرقہ وارانہ فسادہوا۔شہر میں آئے دن قتل وغارت گری کے واقعات پیش آرہے ہیں۔محمدمحمود علی نے کہاکہ ےہ بڑے شرم کی بات ہے کہ کانگریس حکومت میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں ہے۔انہوںنے کہاکہ مرکز میں بی جے پی برسراقتدار ہے اور ریاست میں کانگریس برسراقتدار ہے۔دونوں ہی حکومتوں میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔انہوںنے کہاکہ تلنگانہ کے چیف منسٹر ریونت ریڈی کا بی جے پی سے گہرا تعلق ہے۔انہوں نے کہاکہ کوئی بھی مسلم قائد کو رکن قانون ساز کونسل بناتے ہوئے وزیر بنایاجاسکتاتھا تاہم ایسا نہیں کیاگیا۔انہوںنے کہاکہ دوسری طرف اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقیقی ہمدرد قائد کے سی آر نے 2014میں ایک مسلمان کو ڈپٹی چیف منسٹر اور وزیر مال کا قلمدان دیا۔ اسی طرح بی آرایس کی دوسری میعاد میں مسلم قائد کو وزیر داخلہ کااہم ترین قلمدان تفویض کیا۔یہ بڑے فخر کی بات ہے۔
محمدمحمود علی نے کہاکہ آج وزیر داخلہ کا قلمدان چیف منسٹر ریونت ریڈی کے پاس ہے تاہم نظم وضبط کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔انہوںنے کہاکہ کانگریس حکومت آج صرف بلند بانگ دعوے کررہی ہے ۔عملی اقدامات صفر ہیں۔انہوںنے کہاکہ بی آرایس کے دورحکومت میں اسلامک سنٹر کے قیام کےلئے 10ایکر اراضی منظور کی گئی۔علاوہ ازیں درگاہ حضرت جہانگیر پیراں ؒ کی ترقی کےلئے بھی 50کروڑ روپئے کی منظوری دی گئی تھی۔محمدمحمود علی نے کہاکہ مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کےلئے بی آرایس ہرممکن اقدامات روبہ عمل لائے گی۔انہوںنے کہاکہ وقف ترمیمی بل کے خلاف جدوجہد کی جائے گی۔رکن قانون ساز کونسل بی آرایس نے کہاکہ سال 2004میں جب بی آرایس مرکز میں کانگریس حکومت کاحصہ تھی اس وقت بی آرایس سربراہ کے چندر شیکھر راﺅ نے وزیر اعظم منموہن سنگھ سے نمائندگی کی تھی۔جس پر سچر کمیٹی کی تشکیل عمل میںلائی گئی۔انہوںنے کہاکہ سچر کمیٹی نے مسلمانوں کو دلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ قرار دیاہے تاہم آج تک سچر کمیٹی کی سفارشات پر عمل نہیں کیاگیاہے۔محمدمحمود علی نے کہاکہ بی آرایس کے تمام اعلیٰ قائدین وقف ترمیمی بل کے خلاف تحریک چلائےںگے اور اس سلسلہ میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے بھی ملاقات کی جائے گی۔انہوںنے کہاکہ بی آرایس تمام سیکولر جماعتوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ وقف ترمیمی بل کے خلاف آواز اٹھائیں۔
اس موقع پر سابق صدرنشین حج کمیٹی محمد سلیم اور سابق صدرنشین وقف بورڈ مسیح اللہ خان نے بھی خطاب کیا۔پریس کانفرنس میں بی آرایس لیڈرس خواجہ بدرالدین‘منیر الدین‘عبدالکلیم‘عبدالریحان اور دوسرے موجود تھے۔