شہر کی خبریں
عالمی شخصیت پر حملہ پر عالمی رہنما بے چین لیکن اسرائیل کی سفاکی اور فلسطین کے مظلوم نظرنہیں آرہے ہیں:مولاناجعفرپاشاہ
امیر ملت اسلامیہ تلنگانہ وآندھرا پردیش حضرت مولانا محمد حسام الدین ثانی عاقل جعفر پاشاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایک عالمی شخصیت پر گزشتہ روز ہوئے حملہ کے بعد ساری دنیا کے رہنمابے چین و بے قرارہوگئے۔دنیا بھر کے عالمی رہنمااس واقعہ کی شدید مذمت بھی کررہے ہیں اوراس ایک واقعہ پر ان کی فکرمندی ظاہر کرتی ہے کہ وہ تشدد اور ظلم کیخلاف ہیں۔ اسلام نے مظلوم کے لئے کوئی معیار مقرر نہیں کیا خواہ ایک عام معمولی پیشہ سے تعلق رکھنے والا ہو یا دنیا میں عالمی شخصیت کی حیثیت سے متعارف کوئی شخصیت ہو اس پر حملہ ہوتا ہے تو اسلام کی نظر میں ظالم اور ظلم کو سخت ناپسند کیا گیا ہے،سوال یہ ہے کہ دس مہینوں کاعرصہ گزرچکا ہے، فلسطینیوں پر اسرائیلی فضائی اور زمینی حملے مسلسل جاری ہیں
7۔ اکتوبر 2023ء سے لیکر اب تک اسرائیلی حملوں میں لاکھوں فلسطینی شہید اور بے گھر ہوچکے ہیں لیکن انسانیت نواز اور تشدد کی مذمت کرنے والوں کو آخر فلسطین کے واقعات کیوں نظر نہیں آتے کیا۔ فلسطین میں ہر روز بے قصور انسانوں کو مارا جارہا ہے آخر ان کے کوئی قصور سے یہ عالمی رہنماواقف ہیں؟ کیا صرف ایک عالمی شخصیت کی جان کی اہمیت ہے اور باقی انسانوں کو جینے کا کوئی حق نہیں ہے اس سوال کا جواب دینے سے یہ دنیا بھر کے نام نہادمقامی وعالمی رہنماقاصر ہیں۔ اسرائیلی درندہ صفت فوجیوں نے غزہ کو جہنم بناکر رکھ دیا ہے اور عالمی رہنما خاموش ہیں اور ایک شخصیت پر حملہ کی وجہ سے تلملا اٹھے ہیں میڈیا کی اطلاعات کے مطابق شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ گئی ہے جن میں ہزاروں معصوم وشیر خوار بچے اور بے گناہ اور بے یارومددگار خواتین بھی شامل ہیں۔ غزہ کی نصف سے زیادہ آبادی نقل مقام کرچکی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔درندگی اور حیوانیت کی انتہا یہ ہے کہ جان بچاکر بھاگنے والے نہتے ومعصوم لوگوں پر اسرائیلی درندے فائرنگ کرتے ہوئے شہید کررہے ہیں۔نام نہاد انسانیت پسند رہنماوں نے صرف ایک دن قبل 13۔ جولائی ہفتہ کو جنوبی غزہ پٹی میں ہوئے اسرائیل کے بدترین حملہ اور درجنوں جاں بحق ہونے والوں کے واقعہ سے بھی چشم پوشی اختیار کرلی ہے۔ جیسا کہ اس واقعہ کا انہیں کوئی علم ہی نہ ہو اور اگر علم ہوا بھی ہے تو ان نام نہاد انسانیت نواز مقامی وعالمی رہنماوں کے ہاں اس واقعہ اور ان جانوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ مولانا جعفر پاشاہ نے انسانیت کی دہائی دینے والوں کو انسانیت کا درس دیتے ہوئے بتایا کہ غزہ میں لاکھوں گھروں کومسمار کردیاگیا ہے۔
شہری علاقوں کوکھنڈرات میں تبدیل کردیا جارہا ہے۔ مساجد شہید کردی گئیں۔ ظلم وبربریت کی انتہا یہ ہیکہ اسکولوں پر بمباری اور اسپتالوں میں زیر علاج زخمیوں پر بھی بمباری کی جارہی ہے۔ درندگی اور سفاکیت کا یہ عالم ہے کہ زخمیوں کو لانے اورلے جانے والی ایمبولینس گاڑیوں پر بھی بم برسائے جارہے ہیں۔ کیا ان واقعات سے عالمی رہنماابھی تک ناواقف ہیں۔ آخر اسرائیل کے مظالم پر خاموشی کی وجہ کیا ہے؟ کیا کسی ملک کے باشندوں کا مسلمان ہونا مقامی یا عالمی جُرم ہے؟ کیامسلمانوں کو انسان نہیں سمجھا جانا چاہئے؟ مولانا جعفر پاشاہ نے کہا کہ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق خود اقوام متحدہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ امدادی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے کے لئے کام کرنے والے عملہ کے کئی ارکان اور سول ڈیفینس کے امدادی کارکنوں کو بھی نہیں بخشاگیا ہے۔ واقعات کی رپورٹنگ کر نے والے کئی صحافی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ انسانی زندگیاں ناقابل بیان مصائب سے دوچار ہیں۔ لاکھوں لوگ آسمان تلے شدید دھوپ اور پیاس سے بلک رہے ہیں۔ ظالموں کو ان پر ذرا بھی ترس نہیں آتا اور حقوق انسانی کی بات کرنے والوں کو تو جیسے سانپ سو نگھ گیا ہے۔ آخر غزہ ہو یا دیگر مقامات کے بے یارومددگار پریشان حال مسلمانوں پر تشدد اور مظالم پر کیوں خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ پانی جیسی بنیادی واہم ضرورت سے بھی غزہ کے لوگوں کو محروم کردینا جنگلی درندوں سے بھی زیادہ درندگی ہے۔ مظلوم چیخ رہے ہیں اور جب یہ آوازیں ہی سنی نہ جائیں تو پھرانسانیت اور حقوق انسانی کی بات کرنے والے خود انسان کہلانے کے حق سے محروم ہیں۔