شہر کی خبریںمتفرق

ایک مسلمان کا خون دوسرے مسلمان پر حرام، جنت سے محرومی کا سبب،،قتل ایک سنگین جرم دنیا اور آخرت تباہ،

مضمون نگار، حافظ محمد عبد القیوم نعمانی

شہر حیدراباد میں پچھلے کچھ دنوں سے ایک دھوم سی مچی ہوئی ہے کہ آخر مسلمانوں میں اپسی قتل و قتال کیوں جاری ہے ہر کوئی قتل ناحق کے واقعات پر بے چین نظر اتا ہے اخر اس کی وجہ کیا ہے اور اس کو روکا کیسے جا سکتا ہے حالات اتنے تشویش ناک ہو گئے ہیں کہ پولیس کی چوکسی کے باوجود ہمیں ایسی خبریں ائے دن سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں جس میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل جیسے سنگین جرم کا ارتکاب ہو رہا ہے کہیں تو قرض کی واپسی کا مطالبہ کرنے والوں کو قرض واپس کرنے کے بجائے منصوبہ بند انداز میں بلا کر قتل کیا جا رہا ہے کہیں پرانی دشمنی کو پروان چڑھاتے ہوئے قتل کیا جا رہا ہے کہیں اپنے کسی رشتہ دار کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے قتل کیا جا رہا ہے ایک تو ایسا بھی دردناک واقعہ سننے کو ملا کرنے پر ساس نے گلا گھوٹ کا ختم کر دیا حیرت کی بات یہ ہے کہ ان سارے واقعات میں مرنے والا بھی مسلمان اور مارنے والے بھی مسلمان یعنی مسلمان قاتل بھی اور مسلمان مقتول بھی معاشرے میں پھیل رہے اس اندوہناک ماحول کو سدھارنے اور درست کرنے کی سمت ہم کو ٹھوس قدم اٹھانے پڑیں گے اس سلسلے میں یہ یاد رہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مسلمانوں کو اپس میں ایک دوسرے سے کچھ اس انداز سے جوڑ دیا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی دولت عزت اور جان کا محافظ ہے کہیں اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہو رہی ہے تو سارے ہی مسلمانوں کا یہ فریضہ ہے کہ اس کو تاہی کو دور کرنے میں اس برائی کو ختم کرنے میں ہمہ تن مصروف ہو جائیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایمان والے ہونے پر ہم پر کو ذمہ داری عائد کی ہے کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کچھ حقوق ہیں سلام کرے تو جواب دے بیمار ہو تو مزاج پرسی کرے دعوت دے تو قبول کرے چھینک ائے تو جواب دے انتقال کر جائے تو اس کی جنازے میں شرکت کرے لیکن اس کے برخلاف ہم ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کے بجائے اپس میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن کر جگ ہسائی کا سبب بن رہے ہیں
حالات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ اب تو برائی کو برائی تک نہیں سمجھا جا رہا ہے بلکہ اگر کہیں کوئی ایسا واقعہ رونما ہو تو لوگ اسے بیچ بچاؤ کر کے روکنے کے بجائے دور کھڑے یا تو تماشہ دیکھ رہے ہیں یا پھر ویڈیو گرافی کر کے اپنے اپ کو بہت بڑا بہادر سمجھ رہے ہیں اس سلسلے میں حدیث مبارک سب کو ذہن نشین کر لینی چاہیے اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں اگر کوئی برا کام ہوتا ہوا دیکھے یا برائی دیکھے تو چاہیے کہ تم اس کو اپنے ہاتھ سے روکے یعنی قوت اور طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس برائی کو روکیں اور اگر تم میں ایسا کرنے کی صلاحیت اور طاقت نہیں ہے تو کم سے کم زبان کا استعمال کرتے ہوئے ان کو اس برے کام سے باز رہنے کی ترغیب دیں اور اگر ایسا بھی نہیں کیا جا سکتا اتنی بھی طاقت قوت ہمت و حوصلہ نہیں ہے تو پھر کم از کم اس برے خیال کو اس بری حرکت کو دل سے برا جانے اور یہ تیسرا درجہ سب سے کمتر درجہ کا علاقہ ہے ایمان اہمیت کا اعلی درجہ یہ ہے کہ اس برائی کو شد و مت کے ساتھ کوئی قوت استعمال کرتے ہوئے روکا جائے اس کے بعد والا درجہ زبان سے روکا جائے اور اس کے بعد دوبارہ درجہ دل میں برا خیال کیا جائے جس کو رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایمان کا سب سے کمتر درجہ یا کمزور ایمان قرار دیا
ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری سوسائٹی میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں اور پھر غصہ طیش کی شدت ہاتھ پیچھے لینے نہیں دیتی اخر کار انسانی جان تلف ہو جاتی ہے کسی کو اس کی پرواہ نہیں کہ ایک انسان کا قتل کرنا اللہ تعالی کے نزدیک اتنا بڑا گناہ ہے کہ فرمایا ناحق کسی کی جان لینا ایسا ہے جیسا کہ اس نے ساری انسانیت کو قتل کر دیا اور جس کسی نے ایک انسان کی جان بچائی گویا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے پوری انسانیت کی حفاظت فرمائی دیکھتے ہی دیکھتے چھوٹے چھوٹے مسائل پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر طیش میں ا کر اقدام قتل کر دیتے ہیں اس کے نتیجے میں ایک ماں کی گود اجڑ جاتی ہے یا ایک بیوی کا سہاگ مٹ جاتا ہے یا چھوٹے معصوم لڑکے لڑکیوں کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ جاتا ہے اور یہ لوگ داغ یتیمی لیے ہوئے دنیا کے مصائب و آلام کے تھپیڑوں کے حوالے ہو جاتے ہیں
جاننا چاہیے کہ غصہ طیش آپے سے باہر ہونا اپنے اپ کو بہت بڑا طاقتور مرد سمجھنا یہ سب دھوکے کی باتیں ہیں اور جوش میں ہوش کھو دینا کم عقلی اور نادانی کی بات ہے

واقعہ رونما ہو جانے کے بعد شرمندگی اعتراف جرم سے کیا فائدہ کہنے والا کہتا ہے کہ میرا ارادہ صرف ڈرانے کا تھا دھمکانے کا تھا میں قتل کرنا نہیں چاہ رہا تھا لیکن میں خود حیران ہوں کہ کیسے ختم ہو گیا یہ سب بیکار باتیں ہیں جس سے کچھ حاصل نہیں انسانی جان کی جو عظمت و حرمت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائی ہے اس سے نہ ہم واقف ہوتے ہیں نہ اس کو ذہن میں رکھتے ہیں بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق قیامت کے دن قتل و غارت گری اور خون ریزی کے متعلق ہی سب سے پہلےفیصلہ سنایا جائے گا ایک اور مقام پر بخاری شریف میں آیا ہے کہ قیامت کے دن رب العالمین بندوں کے حقوق میں سب سے پہلے قتل ناحق کا فیصلہ فرمائیں گے اور اس عظیم جرم کے انجام دینے والے افراد کے بارے میں اس لیے جلد فیصلہ کیا جائے گا تاکہ انہیں جلد سزا دی جا سکے
ایک روایت میں ایا کہ اگر کوئی کسی کا ناحق قتل کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی نہ کوئی نفل نماز قبول فرمائے گا اور نہ ہی فرض عبادت قبول کرے گا قتل ناحق کے بارے میں قران پاک کا واضح ارشاد ہے ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاه ج هنم خالدا فيها وغضب الله عليه ولعنه واعد له عذابا عظيما سورہ نساء کی ایت نمبر 3 میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ اور جو کوئی کسی مومن کو امدا یعنی جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر غضب نازل کرے گا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس کے لیے اللہ نے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے
ہمارے معاشرے میں ہونے والے ان ناحق قتلوں کے اسباب کیا ہیں اس کو تلاشہ جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بیکاری، دین سے دوری، علم و عمل کے میدان سے فراری، نشہ اوری اور بات بات پر لڑائی جھگڑا گالی گلوچ کی عادت انسان اور انسانیت کے رشتوں کی پامالی ضد ہٹ دھرمی مال و دولت یا طاقت قوت پر غرور اور سب سے بڑی بات سزا کا غیر موثر ہو جانا ہے خوف خدا بھی نہیں خوف سزا بھی نہیں،
سزا اگر سخت ہو تو دوسروں کو اس بارے میں خیال ہوگا کہ اس کی سخت سزا ہوگی لیکن اج قانون اور لا اینڈ ارڈر مینٹین کرنے والے اس بات سے بے پرواہ ہیں کہ قاتل ایک قتل کرنے کے بعد اور شیئر ہو جاتا ہے کچھ پیسے خرچ کر کے ضمانت پر باہر اتا ہے اور مزید قتل کی کاروائیاں انجام دیتا ہے جس سے یہ سلسلہ موقوف ہوتا دکھائی نہیں دیتا اس کے سدباب کی یہی ایک صورت ہے کہ اچھی صحبتوں کا اختیار کرنا صحبتوں سے اجتناب کر نا لایعنی کاموں سے گریز کرنا اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے سلسلے میں سنجیدہ ہونا ضروری ہے اس بارے میں ماں باپ گھر کے بڑوں کو بھی خاص نگرانی کی نظر رکھنا لاڑم ہے آخر میں میں مولانا حافظ نعمانی کہا
پھر اور کام یہ بھی کیا جا سکتا ہے مسلمانوں میں قتل کرنے والوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے۔اللہ تعالی مسلمانوں کو توفیق عطا فرمائے امین

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button