تلنگانہ تلی مجسمہ کی تبدیلی ثقافتی شناخت اور عوامی جذبات اور احساسات پر رکیک حملہ
کانگریس حکومت کا فیصلہ غیر دانشمندانہ اور ناقابل قبول۔ کے کویتا
تلنگانہ تلی مجسمہ کی تبدیلی ثقافتی شناخت اور عوامی جذبات اور احساسات پر رکیک حملہ
تلنگانہ کی ثقافت سے مربوط عوامی جذبات اور احساسات کو بی آر ایس نے ہمیشہ تقویت بخشی
کانگریس حکومت کا فیصلہ غیر دانشمندانہ اور ناقابل قبول۔ کے کویتا
تلنگانہ تلی صرف مجسمہ نہیں ہے۔ تلنگانہ تلی ہماری تحریکات اور ہماری عزت نفس کی علامت ہے۔ تلنگانہ تلی ہمارے وجود کی علامت ہے۔ تلنگانہ تلی کے مجسمہ کی تبدیلی کا مطلب تلنگانہ کی روح کی توہین ہے۔
تلنگانہ وہ سرزمین ہے جس نے ریاست کی تشکیل کے لئے جدوجہد کی اور تلنگانہ حاصل کیا۔ ہم پھر ایک مرتبہ تلنگانہ کی ثقافت اور عزت نفس کے تحفظ کے لئے احتجاج کرنے تیار ہیں۔
حیدرآباد: تلنگانہ کی ثقافتی شناخت اورعلامت تلنگانہ تلی کے مجسمہ کو تبدیل کرنے کے کانگریس حکومت کے متنازعہ فیصلہ کی کے کویتا رکن قانون ساز کونسل بی آر ایس نے شدید مخالفت کی اور اس اقدام کو تلنگانہ کی تہذیب اور عوامی جذبات اور احساسات پر رکیک حملہ سے تعبیر کیا۔کے کویتا نے تلنگانہ کے عوامی وقار اور ریاست کی ثقافتی شناخت کے تحفظ کے عزم کا اعادہ کیا اورحیدرآباد کے تلنگانہ بھون میں واقع تلنگانہ تلی کے مجسمے پر پالا ابھیشیکم اور پنچامرت ابھیشیکم انجام دیا۔ ان روایتی رسومات کے ذریعہ انہوں نے نہ صرف تلنگانہ کی ثقافت سے اپنی محبت اور اٹوٹ وابستگی کا اظہار کیا بلکہ حکومت کے اس متنازعہ فیصلہ کے خلاف ایک مضبوط پیغام بھی دیا۔
اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کے کویتا نے کہا کہ تلنگانہ تلی کا مجسمہ ہماری ریاست کی شناخت، ثقافتی ورثہ اور تلنگانہ کے عوام کی جدوجہد کا مظہر ہے۔ اس کی جگہ تبدیل کرنا عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔ ہم کسی بھی حالت میں تلنگانہ کے وقار پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔کے کویتا نے تلنگانہ کانگریس حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے عوام نے برسوں تک تلنگانہ کی تشکیل کے لئے جدوجہد کی اور تلنگانہ تلی کا مجسمہ اس جدوجہد کی علامت ہے۔ عوامی جذبات کے خلاف اسے تبدیل کرنا ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔
تلنگانہ تلی کے مجسمہ پر پالا ابھیشیکم اور پنچامرت ابھیشیکم جیسے روایتی رسومات کی انجام دہی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے عوامی جذبہ اور ریاست کی ثقافت سے اٹوٹ وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ کے کویتا نے مزید کہا کہ بی آر ایس تلنگانہ کے عوام کی ثقافتی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے ہمیشہ پرعزم رہے گی۔انہوں نے استفسار کیا کہ کانگریس حکومت نے عوام سے مشورہ کیے بغیر یہ فیصلہ کیوں کیا؟ مزید کہ اگر کانگریس کو واقعی تلنگانہ کے عوام کی جذبات کی قدر ہے تو پھر یہ فیصلہ خفیہ طریقے سے کیوں لیا گیا؟”
کویتا نے کانگریس حکومت کی نیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ مجسمے کی تبدیلی کے وقت کا انتخاب بھی سیاست پر مبنی ہے کیونکہ اسے سونیا گاندھی کی سالگرہ کے دن متعارف کرایا گیا۔ انہوں نے کہا، "اگر وزیراعلیٰ ریونت ریڈی گاندھی خاندان کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو اس کے اور بھی کئی طریقے ہیں، لیکن تلنگانہ کی شناخت کو قربان کرنایہ طریقہ کار درست نہیں ہو سکتا۔
بی آر ایس رہنما نے کہا کہ کانگریس حکومت عوامی مسائل کو حل کرنے کے بجائے علامتی تبدیلیوں پر توجہ دے رہی ہے۔ انہوں نے آشا ورکروں کے ساتھ کانگریس کے غیر انسانی رویے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ،بھارت راشٹر سمیتی کے دورِ حکومت میں ہمیشہ عوامی مسائل کو اہمیت دی گئی، جبکہ کانگریس صرف وعدے ہی کرتی ہے عمل نہیں۔بی آر ایس لیڈر نے کہا کہ تلنگانہ کی ثقافت سے مربوط عوامی جذبات اور احساسات کو بی آر ایس نے ہمیشہ تقویت بخشی ہے اور کانگریس حکومت کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ تلنگانہ کے عوام اپنی تہذیب اور روایات کے خلاف کسی بھی فیصلہ کو ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ تلنگانہ تلی کا مجسمہ تلنگانہ کے عوام کی غیرت اور ان کی جدوجہد کی علامت ہے اور اس کی حفاظت کے لئے بی آر ایس عوام کے ساتھ ہمیشہ کھڑی رہے گی۔
#Telangana Statue Controversy