وقف ترمیمی بل قابل قبول نہیں ۔فی الفور دستبرداری اختیار کی جائے
ریاست تلنگانہ میں امن وامان کی صورتحال ابتر۔سابق وزیر داخلہ ورکن کونسل محمدمحمود علی کی پریس کانفرنس
وقف ترمیمی بل قابل قبول نہیں ۔فی الفور دستبرداری اختیار کی جائے
ریاست تلنگانہ میں امن وامان کی صورتحال ابتر۔سابق وزیر داخلہ ورکن کونسل محمدمحمود علی کی پریس کانفرنس
حیدرآباد۔,(آداب تلنگانہ نیوز) وقف ترمیمی بل درا صل ایک بہانہ ہے اور اس کے ذریعہ مسلمان نشانہ ہیں۔ وقف اراضیات ہمارے اسلاف کے عطیات ہیں جن کا منشا و مقصد غریب مسلمانوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہے ۔ تاہم آج حکومت بدنیتی پر مبنی وقف ایکٹ کے ذریعہ اوقافی اراضیات کو نقصان پہنچانے کے علاوہ وقف بورڈ کے اختیارات کو سلب کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ان خیالات کا اظہار سابق وزیر داخلہ و رکن قانون ساز کونسل محمد محمود علی اوربی آر ایس کے سینئر اقلیتی قائد خواجہ بدرالدین نے آج میڈیا کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوںنے بتایا کہ نئی ترمیمات کی منظوری کی صورت میں تمام اختیارات ضلع کلکٹر کو حاصل ہوں گے۔ در اصل کلکٹر راج وجود میں آئیگا۔ اوقافی جائیدادوں سے متعلق قطعی فیصلہ وقف ٹریبونل کے بجائے کلکٹر کا ہوگا۔ دراصل یہ بل مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے خلاف ہے ۔ وقف ترمیمی بل مسلمانوں کے لئے قطعی قابل قبول نہیں ہے۔ اس مسئلہ کا تعلق پرسنل لا سے ہے اسی لئے علٰیحدہ کوئی قانون کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ مسلمان ہر قسم کا نقصان برداشت کرسکتا ہے تاہم شریعت اور مسلم پرسنل لا میں مداخلت کو برداشت نہیں کرسکتا ۔ اب جب کہ وقف ترمیمی بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو روانہ کیا گیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ سیکولر قائدین اس معاملہ میں مداخلت کریں اور ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بنانے پر مبنی اس بل کی مخالفت کریں۔ وقف ترمیمی بل مجوزہ ترمیمات کے خلاف ایک تفصیلی یادداشت، نمائندگی JPC کو پیش کی گئی ہے۔ جس میں JPC سے خواہش کی گئی ہے کہ وہ مجوزہ ترمیمات سے دستبرداری کے لئے حکومت سے سفارش کرے۔
ریاست تلنگانہ میںامن وامان کی صورتحال ابتر۔
سابق وزیر داخلہ و رکن قانون ساز کونسل محمد محمود علی اوربی آر ایس قائد بدرالدین نے ریاست میں لا اینڈ آرڈر سے متعلق بتایا کہ تشدد، فسادات اور کرفیو کانگریس کا کلچر رہا ہے۔ جب سے کانگریس حکومت تلنگانہ میں برسر اقتدار آئی ہے۔ تشدد اور فسادات کے واقعات متواتر پیش آرہے ہیں۔ ُپر امن اور پر سکون ریاست میں امن و امان بر ی طرح متاثر ہوچکا ہے۔ریاست میں لاءاینڈ آرڈرکی صورتحال ابتر ہوچکی ہے۔حال ہی میں جینور میں فساد بھڑک اٹھا ۔ جس میں مسلمانوں کے کئی مکانات اور دکانات کونذر آتش کردیاگیا۔ اسی طرح چند ماہ قبل ضلع میدک میں فرقہ وارانہ فساد ہوا۔ اقلیتوں پر حملہ کئے گئے ۔املاک کو تباہ و تاراج کیا گیا۔محمد محمود علی نے کہا کہ قیام تلنگانہ سے قبل چند گوشوں میں یہ افواہیں پھیلائیں تھیں کہ اگر علیٰحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل عمل میں آتی ہے تب تلنگانہ میں امن و ضبط کی صورتحال ابتر ہوجائیگی۔ شدت پسندی اور تشدد میں اضافہ ہوگا۔ انتہائی قلیل عرصہ میں کے سی آر کی قیادت میں بی آر ایس کی حکومت نے ایسی اطلاعات کو غلط ثابت کیا اور امن وا مان کی برقراری کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ کے ہم آہنگی کے فروغ کو یقینی بنایا۔ بی آر ایس کے ساڑھے نو سالہ دور اقتدار میں کبھی بھی ریاست میں لا اینڈ آرڈر کا کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تلنگانہ میں بی آر ایس کے دور حکومت میں نظم و ضبط پر حکومت کا کس قدر کنٹرول تھا۔