تلنگانہ کو ڈاکٹرس کی فیکٹری بنانے کے سی آر کے ویژن کو گرہن لگ گیا: کے ٹی آر
کانگریس حکومت کی پالیسیوں کے باعث طلبہ اور والدین مشکلات کاشکار:کے ٹی آر
حیدرآباد۔ 14 ستمبر (آداب تلنگانہ نیوز) کارگزار صدر بی آر ایس اور رکن اسمبلی سرسلہ، کے تارک راماراؤ نے ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس میں داخلوں کے عمل میں تاخیر پر ریاست میں میڈیکل تعلیم کے خواہاں طلبہ کے مستقبل کے بارے میں کانگریس حکومت سے سوال کیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ پڑوسی ریاستوں میں داخلوں کا عمل جاری ہے، جبکہ تلنگانہ کے طلبہ غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ کے ٹی آر نے کانگریس حکومت کی ناکامی کو داخلہ کے عمل میں رکاوٹ کی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس تاخیر نے طلبہ اور ان کے والدین کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔
کے ٹی آر نے مزید کہا کہ داخلوں میں تاخیر میڈیکل تعلیم کے خواہاں طلبہ کے لیے باعث پریشانی ہے، کیونکہ ان طلبہ نے جاریہ سال میڈیکل تعلیم کے حصول کی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ انہوں نے متنازعہ جی او 33 کے نفاذ پر بھی کانگریس حکومت سے استفسار کیا، جس کے باعث مبینہ طور پر تلنگانہ کے طلبہ غیر مقامی بن گئے ہیں جبکہ دوسری ریاستوں کے طلبہ کو ترجیح دی جارہی ہے۔ اس اقدام پر بڑے پیمانے پر تنقیدیں کی جارہی ہیں اور حکومت کے فیصلے کو میڈیکل تعلیم کے خواہاں طلبہ کے مفادات کے خلاف قرار دیا جارہا ہے۔
کے ٹی آر نے کہا کہ حکومت کے فیصلے ان والدین کی امیدوں کو ختم کررہے ہیں جو اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ریاستی حکومت طلبہ کے مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے فیصلوں سے فی الفور دستبرداری اختیار کرے۔
کے ٹی آر نے مزید کہا کہ بی آر ایس حکومت کے تحت تلنگانہ میں میڈیکل کالجوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ متحدہ ریاست آندھرا پردیش میں محض 5 میڈیکل کالجز تھے، جن کی تعداد بڑھ کر 29 ہوئی اور اب یہ تعداد 34 تک پہنچ چکی ہے۔ بی آر ایس حکومت نے ہر ضلع میں ایک میڈیکل کالج کا نعرہ دیا تھا اور ایم بی بی ایس کی نشستوں کی تعداد بڑھا کر 8915 کی گئی، جس سے ریاست کو طبی تعلیم کا مرکز بنایا گیا۔
کے ٹی آر نے خبردار کیا کہ کانگریس حکومت کی موجودہ پالیسیوں کے باعث ان کامیابیوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ کو "ڈاکٹرز کی فیکٹری” بنانے کے کے سی آر حکومت کے ویژن کو موجودہ حکومت کی ناکامیوں کے باعث نقصان پہنچ رہا ہے۔ کے ٹی آر نے مطالبہ کیا کہ داخلوں کے عمل میں حائل رکاوٹوں کو فوری طور پر دور کیا جائے تاکہ ہزاروں طلبہ اور ان کے والدین کی امیدوں کو مایوسی میں نہ بدلا جائے۔