وادی کشمیر میں بادام کی صنعت روبہ زوال
وادی کشمیر میں بادام کی صنعت روبہ زوال
سری نگر، 26 اگست: وادی کشمیر میں گرچہ ایک طرف سیب کی مختلف اقسام کے باغات کا رقبہ ہر گذرتے سال کے ساتھ وسیع تر ہو رہا ہے لیکن دوسری طرف بادام کے باغات اس قدر معدوم ہو رہے ہیں کہ یہ پھل نایاب ہونے کی دہلیز پر ہے۔ایک اندازے کے مطابق قریب دو دہائی قبل وادی میں 15 ہزار ہیکٹر اراضی پر بادام کے باغ لگے ہوئے تھے جو اب سکڑ کر کئی ہیکڑ رہ گئی ہے یہی وجہ ہے کہ وادی کشمیر میں بادام پھل کی پیدا وار میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔
وادی میں بادام پھل کی پید وار میں کمی واقع ہونے کی جو وجوہات ہیں ان میں زیادہ تر اراضی پر سیب کے ہائی ڈنسٹی اور دیگر اقسام کے باغ لگانے کا رجحان اور تعمیراتی ڈھانچے کھڑا کرنے کو قرار دیا جاتا ہے۔
چیف ہارٹیکلچر افسر پلوامہ جاوید احمد بٹ نے یو این آئی کو بتایا: ‘کسان اپنی اراضی پر ہائی ڈنسٹی کے سیب باغ لگاتے ہیں کیونکہ اس سے کافی اچھی آمدنی ہوتی ہے گرچہ اس پر خرچہ بھی کافی آتا ہے’۔
انہوں نے کہا:’بہتر آمدنی کے پیش نظر کسان زیادہ سے زیادہ اراضی پر سیب کے باغات لگانے کو ترجیح دے رہے ہیں’۔
ان کا کہنا ہے:’سیب کی مختلف اقسام دستیاب ہیں جن کو کاشتکار اپنی اراضی پر لگا کر بھر پور کمائی کرتے ہیں’۔
موصوف افسر نے کہا کہ محکمے نے بادام کے بھی ہائی ڈنسٹی قسم کو متعارف کیا ہے۔
انہوں نے کہا: ‘یہ باغات بنانے میں خرچہ بھی بہت کم آئے گا اور باغوں کی دیکھ ریکھ پر بھی کم خرچہ آئے گا جبکہ آمدنی تسلی بخش ہوگی’۔
ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں مختلف اقسام کے بادام نہیں اگائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے مارکیٹ کی مانگ پوری نہیں ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو ہائی ڈنسٹی بادام کے پودے متعارف کئے جا رہے ہیں ان کے لگانے کے خرچے کو ایک عام کسان بھی برداشت کرسکتا ہے۔
پلوامہ سے تعلق رکھنے والے شبیر احمد نامی ایک کاشتکار نے بتایا: ‘ہمارے ضلع میں ہزاروں کنال اراضی پر بادام کے باغات تھے جن کو گذشتہ برسوں کے دوران کاٹ کرسیب کے باغات میں تبدیل کر دیا گیا’۔
انہوں نے کہا: ‘مجھے 8 کنال اراضی پر بادام باغ تھا جس کو کاٹ کر میں نے سیب کے باغ میں تبدیل کر دیا لیکن میں اب پچھتا رہا ہوں کیونکہ سیب کے باغ کی دیکھ ریکھ کرنے کے لئے کافی خرچہ آتا ہے اور سال بھر اس کام کے ساتھ مصروف رہنا پڑتا ہے جبکہ بادام باغ بغیر کسی خاص خرچے کے فصل دیتا تھا’۔
ان کا کہنا تھا: ‘بادام باغ کی میں زیادہ سے زیادہ ایک بار دوا پاشی کرتا تھا اور پھر ماہ اگست میں جا کر بادام اتارنے جاتا تھا’۔
موصوف کاشتکار نے کہا: ‘میں بادام باغ سے بھی اچھی خاصی کمائی کرتا تھا وہ بھی بغیر کسی مشقت کے’۔
انہوں نے کہا: ‘بادام کا میوہ جہاں کم خرچے پرتیار ہوتا ہے وہیں اس کو سال بھر خراب ہونے کا کوئی خطرہ بھی نہیں ہوتا ہے جبکہ اس کے بر عکس سیب کا پھل درخت سے اتارنے کے بعد ہی خراب ہونے کے خطرے میں رہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ‘میں نے چھ سال قبل سیب کا باغ لگایا ابھی خرچہ سے تھوڑی زیادہ آمدنی ہوتی ہے’۔
انہوں نے کہا: ‘ بادام کو پیک کرنے کا عمل بھی آسان اور سادہ ہے،اتارنے کے بعد کچھ ان کو سُکھایا جاتا ہے اور پھر بوریوں میں بھر کر بیوپاریوں کو بھیج دیا جاتا ہے’۔
محمد جعفر نامی ایک خشک میوہ فروش نے کہا کہ کشمیر میں تیار ہونے والے بادام اب نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا:’دس سال قبل میرے دکان پر کشمیری بادام بھر پور مقدار میں دستیاب ہوتے تھے اور یہاں کے لوگ اور سیاح بھی ان کو خریدتے تھے’۔
ان کا کہنا تھا: ‘اب ہمارے دکانوں پر غیر ملکی بادام دستیاب رہتے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کے بادام معیار اور طبی فوائد میں باقی باداموں سے بہتر ہیں۔
محمد یوسف نامی ایک بیو پاری نے بتایا: ‘میں بڈگام کے دور افتادہ گائوں میں جا کربادام کی بوریاں خرید کر اپنا روزی روٹی کماتا تھا لیکن کسانوں نے بادام کے درختوں کو کاٹ کر وہاں سیب کے باغات تعمیر کئے’۔
انہوں نے کہا: ‘گرچہ سیب کے باغات لگانے سے ان کو کافی زیادہ فائدہ ہوا لیکن کشمیر کی ایک اہم صنعت کو ختم ہونے کے خطرنات لاحق ہوگئے’۔
بڈگام کے محمد صادق نامی ایک کسان نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں سینکڑں کنال اراضی پر بادام باغ تھے اور جب ماہ مئی میں ان درختوں پر شگوفے پھوٹتے تھے تو پورا علاقہ جنت کا نظارہ پیش کرتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس تمام اراضی پر بادام کے درخت کاٹے گئے اور اس اراضی پر یا تو تعمیراتی ڈھانچے تعمیر کئے گئے یا اس پر سیب کے باغ تیار کئے گئے۔
انہوں نے متعلقہ محکمے سے اپیل کی کہ وہ بادام کی صنعت کو بحال کرنے کے لئے ٹھوس اقدام کرے۔