متفرق
وقف جائیداد اور حکومت کی مداخلت
وقف جائیداد اور حکومت کی مداخلت
مصنف: مولانا قاری اسحاق گورا
ہندوستان میں وقف جائیدادیں مسلمانوں کے مذہبی اور سماجی ڈھانچے کا ایک لازمی جزو ہیں۔ وقف کے تصور نے صدیوں سے مسلمانوں کے لیے روحانی، تعلیمی، اور رفاہی خدمات فراہم کی ہیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں، وقف جائیدادوں کے انتظام اور حکومت کی جانب سے مداخلت کے معاملے پر مسلم رہنماؤں اور عوام کے درمیان گہری تشویش پائی جا رہی ہے۔ حکومت کا حالیہ اقدام، جس میں پارلیمنٹ میں ایک نیا وقف بل پیش کیا گیا ہے، مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مسلسل مداخلت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
وقف عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب “رک جانا” یا “موقوف ہونا” ہے۔ اسلامی شریعت میں وقف کا مطلب ہے کسی جائیداد کو اللہ کی رضا کے لیے موقوف کر دینا تاکہ اس کا فائدہ ہمیشہ کے لیے لوگوں کو پہنچتا رہے۔ وقف جائیداد اسلامی قانون کے مطابق ناقابل فروخت، ناقابل منتقلی، اور ناقابل تقسیم ہوتی ہے۔ یہ جائیدادیں مختلف مقاصد کے لیے وقف کی جا سکتی ہیں، جن میں مذہبی، تعلیمی، رفاہی، اور سماجی خدمات شامل ہیں۔
وقف عام: وقف عام وہ جائیداد ہوتی ہے جو عوامی مفاد کے لیے وقف کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد کسی مخصوص فرد یا خاندان کے بجائے معاشرے کے تمام افراد کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے۔ اس میں مساجد، مدرسے، یتیم خانے، ہسپتال، اور عوامی فلاح و بہبود کے دیگر ادارے شامل ہوتے ہیں۔
وقف خاص: وقف خاص وہ جائیداد ہوتی ہے جو کسی مخصوص خاندان یا فرد کے فائدے کے لیے وقف کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد مخصوص افراد یا خاندان کے لیے مالی امداد، رہائش، یا تعلیم فراہم کرنا ہوتا ہے۔
اسلامی قانون کے تحت، وقف جائیداد اللہ کی ملکیت تصور کی جاتی ہے اور اسے بیچا یا منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ وقف جائیداد کا نگران (متولی) وقف کی شرائط کے مطابق اس کا انتظام کرتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو وقف کی شرائط کے مطابق خرچ کرتا ہے۔
حالیہ برسوں میں وقف جائیدادوں کے انتظامات میں حکومت کی بڑھتی ہوئی مداخلت نے مسلم معاشرے میں تشویش پیدا کی ہے۔ مختلف حکومتوں نے وقف جائیدادوں کے انتظامات کو بہتر بنانے کے نام پر قوانین اور پالیسیوں میں تبدیلیاں کی ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے رہنماؤں اور تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات وقف جائیدادوں کی خودمختاری اور اسلامی اصولوں کے مطابق انتظام میں مداخلت کے مترادف ہیں۔
وقف جائیدادوں کے انتظام میں شفافیت اور جوابدہی کا فقدان اکثر دیکھا گیا ہے۔ بہت سی جائیدادوں پر غیر قانونی قبضے، کرپشن، اور بدانتظامی کی شکایات موصول ہوتی رہی ہیں۔ حکومت نے ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے انتظامی اصلاحات اور قوانین میں تبدیلیاں تجویز کی ہیں۔ سیاسی وجوہات: وقف جائیدادیں بہت بڑی مالیاتی اور زمینی وسائل کی حامل ہوتی ہیں۔ کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت ان وسائل پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
حکومت کا موقف یہ ہے کہ چونکہ ہندوستان ایک سیکولر ریاست ہے، اس لیے تمام مذہبی اداروں پر یکساں قوانین کا اطلاق ہونا چاہئے۔ لیکن مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وقف جائیدادوں کا معاملہ خالصتاً مذہبی اور شرعی ہے، اور حکومت کو اس میں مداخلت کا حق نہیں ہے۔ انتہا پسندی کے خدشات: کچھ حلقے وقف جائیدادوں کو اسلامی انتہا پسندی کے فروغ کے ذرائع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ حکومت نے بعض معاملات میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ وقف جائیدادوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا استعمال دہشت گردی یا انتہا پسندی کے فروغ کے لیے کیا جا رہا ہے، حالانکہ اس قسم کے دعوے اکثر بے بنیاد اور تعصب پر مبنی ہوتے ہیں۔
وقف بل اور مسلمانوں کے خدشات وقف بل، جو حالیہ دنوں میں پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے، مسلمانوں کے درمیان خاصی تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ اس بل کے تحت حکومت وقف جائیدادوں کے انتظامات میں مزید کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے۔ بل کے اہم نکات میں وقف بورڈ کے اختیارات میں کمی، حکومت کے نمائندوں کی بورڈ میں شمولیت، اور وقف جائیدادوں کی فروخت یا منتقلی کے قوانین میں تبدیلیاں شامل ہیں۔ مسلمان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ بل ان کے مذہبی معاملات میں کھلی مداخلت ہے اور وقف جائیدادوں کی خودمختاری کو ختم کرنے کی سازش ہے۔ ان کا موقف ہے کہ وقف جائیدادیں مسلمانوں کی روحانی اور سماجی ورثے کا حصہ ہیں اور ان کے انتظامات کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلایا جانا چاہئے۔
حکومت کی مداخلت کے پیچھے چند اہم وجوہات اور مسلمانوں کی چند کمزوریاں بھی ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا:
انتظامی خامیاں اور کرپشن: وقف بورڈ اور دیگر متعلقہ اداروں میں شفافیت اور جوابدہی کا فقدان ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ وقف جائیدادوں کے غلط استعمال اور غیر قانونی قبضے کی شکایات عام ہیں۔ اگر وقف بورڈ اور دیگر ادارے اپنی ذمہ داریاں ایمانداری اور شفافیت کے ساتھ انجام دیں تو حکومت کو مداخلت کا جواز نہ ملے۔
مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی اور طاقت میں کمی بھی ایک اہم وجہ ہے۔ اگرچہ ہندوستان میں مسلمان ایک بڑی اقلیت ہیں، لیکن ان کی سیاسی نمائندگی اور اثر و رسوخ محدود ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے حقوق اور مفادات کو مؤثر طریقے سے دفاع نہیں کیا جا سکتا۔
مسلمانوں کی تعلیمی اور سماجی پسماندگی بھی ایک اہم کمزوری ہے۔ تعلیم کی کمی اور معاشی مسائل نے مسلمانوں کو ایک کمزور پوزیشن میں ڈال دیا ہے جہاں وہ اپنے حقوق کے دفاع میں مؤثر ثابت نہیں ہو پاتے۔ متحدہ قیادت کا فقدان: مسلمانوں کے اندر قیادت کی تقسیم اور مختلف دھڑوں میں اختلافات بھی ایک بڑی کمزوری ہے۔ اگر مسلمان ایک متحدہ قیادت کے تحت اکٹھے ہوں تو ان کے مسائل کو بہتر طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں، جب کہ حکومت وقف جائیدادوں پر کنٹرول بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے، مسلمانوں کو اپنی جائیدادوں اور مذہبی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک جامع اور موثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے:
مسلمانوں کو اس بل کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی چاہئے۔ وقف جائیدادوں کے شرعی اصولوں کے تحفظ کے لیے عدالتوں میں درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔
مسلمانوں کو اپنے سیاسی نمائندوں سے رابطہ قائم کرنا چاہئے اور ان کے ذریعے وقف بل کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر وقف جائیدادوں کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔
عوام کو وقف جائیدادوں کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھ سکیں اور اپنے حقوق کے دفاع کے لیے متحرک ہوں۔
وقف بورڈ کے نظام میں اصلاحات کی جانی چاہئے تاکہ شفافیت، جوابدہی، اور کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ اگر وقف جائیدادوں کا بہتر انتظام ہو تو حکومت کو مداخلت کا جواز نہ ملے۔
مسلمانوں کو اپنے اندر قیادت کے مسائل کو حل کر کے ایک متحدہ اور منظم قیادت کے تحت اکٹھا ہونا چاہئے۔ اس سے نہ صرف وقف کے مسائل حل ہوں گے بلکہ دیگر سماجی اور سیاسی مسائل بھی بہتر طریقے سے حل کیے جا سکتے ہیں۔
وقف جائیدادیں مسلمانوں کے مذہبی، روحانی، اور سماجی زندگی میں ایک نہایت اہم مقام رکھتی ہیں۔ یہ جائیدادیں نہ صرف مذہبی عبادات اور تعلیمی اداروں کے لیے فنڈز فراہم کرتی ہیں، بلکہ سماجی رفاہی کاموں میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے وقف جائیدادوں پر مداخلت اور نئی قانونی تبدیلیاں مسلمانوں کی مذہبی خودمختاری اور ان کے شرعی حقوق پر براہ راست اثر انداز ہو رہی ہیں۔ موجودہ وقف بل، جو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے، نے مسلمانوں کے درمیان گہری تشویش اور احتجاج کو جنم دیا ہے۔ حکومت کی مداخلت کی وجوہات میں انتظامی خامیاں، سیاسی مقاصد، سیکولر ریاست کے دعوے، اور انتہا پسندی کے خدشات شامل ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کو بے بس ہو کر اس صورت حال کو تسلیم کر لینا چاہئے۔ دراصل، مسلمانوں کو اس چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے ایک مؤثر اور منظم حکمت عملی اپنانا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے، مسلمانوں کو سب سے پہلے قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اپنی حقوق کی حفاظت کرنی چاہئے۔ عدالتوں میں درخواستیں دائر کر کے وقف جائیدادوں کی شرعی اصولوں کے مطابق حفاظت کی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، سیاسی شراکت داری کو مضبوط بناتے ہوئے مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر وقف بل کے خلاف آواز اٹھانا بھی ضروری ہے۔ عوامی شعور بیداری کی مہم چلانا، تاکہ لوگ اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھ سکیں، اہم ہے۔ وقف بورڈ کی اصلاحات اور شفافیت کو یقینی بناتے ہوئے اس کے انتظامات کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے تاکہ حکومت کی مداخلت کا جواز ختم ہو سکے۔ مزید برآں، مسلمانوں کو متحدہ قیادت کے تحت اپنی صفوں کو مستحکم کرنا چاہئے تاکہ مسائل کا مؤثر طریقے سے حل تلاش کیا جا سکے۔ اس جامع حکمت عملی کے ذریعے، مسلمان نہ صرف وقف جائیدادوں کے تحفظ کو یقینی بنا سکتے ہیں بلکہ اپنی مذہبی، سماجی، اور تعلیمی حقوق کی حفاظت بھی کر سکتے ہیں۔