ہندوستان ؍ ملک کی خبریں

وقف سے متعلق پیش کردہ ترمیمات وقف ایکٹ کو ختم کرنےکی کوشش:مولانا محمود اسعد مدنی

نئی دہلی، 8 اگست: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محموداسعد مدنی نے وقف ایکٹ میں مجوزہ ترمیمات کے بارے میں سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔یہ تشویش انہوں نے آج یہاں جاری ریلیز میں ظاہر کی ہے۔
ریلیز کے مطابق انھوں نے کہاکہ آج پارلیامنٹ میں جو ترمیمات پیش کی گئیں ، وہ وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اس کے ذریعہ حکومتی اداروں کو غیر ضروری مداخلت کا موقع ملے گا ، جس سے وقف کی اصلی حیثیت اور خدا کی ملکیت کا تصور پامال ہوگا۔
مولانا مدنی نے کہا کہ وقف ایکٹ کی دفعہ 40کو ختم کرنا اور وقف ٹریبونل کے بجائے ضلع کلکٹر کو وقف جائیداد کے عنوانات اور قبضے سے متعلق مسائل اور تنازعات کو ریوینیو قوانین کے مطابق حل کرنے کا اختیار دیا جانا درحقیقت وقف بورڈ کو کالعدم کرنے کے مترادف ہے ۔ انھوں نے کہا کہ باعث تعجب ہے کہ جب کسی زمین پر سرکار کا قبضہ ہو تو اس کی ملکیت کا فیصلہ بھی کلکٹر کے ذریعہ کیا جائے گا ، ایسی صورت میں منصف اور مدعی دونوں سرکار ہی ہو گی ۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ فرقہ پرست عناصر نے وقف ایکٹ کو ختم کرنے کی جو مہم چلائی تھی ، موجودہ سرکار ان لوگوں کے ناپاک خیالات سے متاثر ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ اس طرح کا اقدام سپریم کورٹ کی طے کردہ ہدایات اور آئین ہند کی دفعہ 26کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے لیمٹیشن ایکٹ 1963 سے وقف جائیدادوں کو حاصل تحفظ کے خاتمے ، وقف بائی یوزر اور وقف علی الاولاد کو ختم کرنےکی تجویز کو بھی بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔
وقف جائیدادوں کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئےمولانا مدنی نے مزید کہا کہ وقف جائیدادیں خدا کی ملکیت ہیں، یہ کسی حکومت یا اقتدار اعلی ٰ کے تصرف اور قبضے میں نہیں لائی جاسکتیں ، نیز ان کے مقاصد بھی طے ہیں، جن کی ہدایات اسلامی تعلیمات میں دی گئی ہیں ،اس لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وقف جائیدادوں کا انتظام و اختیار وقف بورڈ کے پاس ہی رہے اور اس میں مسلم اسکالر کی نمائندگی بھی برقرار رہے تاکہ اوقاف کے تقدس اور مقصد کو برقرار رکھا جا سکے۔
مولانا مدنی نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ مجوزہ ترمیمات کو واپس لے اور تمام اسٹیک ہولڈرز، بشمول مذہبی رہنماؤں اور وقف انتظامیہ کے اداروں کے ساتھ تفصیلی مشاورت کرے۔ انھوں نے کہا کہ قانون میں ترمیم یا تبدیلی کوئی ممنوع چیز نہیں ہے، لیکن مجوزہ ترمیمات کے بعض پہلو وقف منشا کے خلاف ہیں، اس لیے قف جائیدادوں کی خودمختاری کو محفوظ رکھا جائے اور کسی بھی تبدیلی کو مذہبی طبقات اور مسلم اداروں کی اتفاق رائے سے انجام دیا جائے ۔مولانا مدنی نے سیاسی پارٹیوں اور تمام متعلقہ شہریوں سے اپیل کی کہ وہ ان مجوزہ ترمیمات کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اور مذہبی حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کے لئے یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button